عجیب سا موسم ہے
آج کل میرے دل کا
اچانک برسات اور
اچانک صحرا کی طرح خشک ہو جاتا ہے
جب یادوں کی بارات آتی ہے
تو دل کی وادیاں بین کرتی ہیں
سینے میں اک ایسا درد ہوتا ہے
جس سے سانس لینے میں
بہت تکلیف ہوتی ہے
گلے میں آواز
اٹک سی جاتی ہے
اک آگ جسم میں
جل سی جاتی ہے
جو چاہتے ہوئے بھی
بجھ نہیں پاتی ہے
میرے قدم قدم پر چاروں طرف
کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں
بے بس وجود میرا
پتھر سا ہوا جاتا ہے
نم آنکھیں کسی کی تلاش کرتی ہیں
نیند پھر کہاں آتی ہے ؟
جب گھڑئی کی ٹک ٹک
احساس دلاتی ہے کہ
وقت چل رہا ہے لیکن
تم میرے پاس نہیں
ہم ساتھ ہیں لیکن
پھر بھی ساتھ نہیں
شاید اسی کو ُجدائی کہتے ہیں