شب فراق ہے اور اضطراب طاری ہے
نفس نفس میں مگر تیرا نام جاری ہے
عزیز کیوں نہ رکھوں دل سے میں غمِ جاناں
رگوں میں خون نہیں کرب و غم ہی جاری ہے
تمہارے نام سے چلتی ہے میری نبضِ حیات
یہ دل تمہارا ہے یہ زندگی تمہاری ہے
کہو لٹا دوں گُل و غنچہ و بہارِ چمن
قسم تمہاری مری باغباں سے یاری ہے
مجھے یقین ہے وہ آج آنے والے ہیں
خدایا خیر عجب دل کو بے قراری ہے
ترے وجود سے اظہارِ رنگ و نور ہوا
ترے جمال سے یہ کائنات پیاری ہے
بچھڑ کے ان سے بہت ہی ملال ہے اختر
ہو دن کہ رات ہمہ وقت سوگواری ہے