عشق جس فرد میں تنویر فشاں ہوتا ہے
اس کے سینے میں چراغاں کا سماں ہوتا ہے
سفر شوق میں رہنا ہے مجھے تا با حیات
اس میں ہر چند بہت جاں کا زیاں ہوتا ہے
چند لمحوں سے زیادہ نہین انساں کی حیات
لیکن انسان کو احساس کہاں ہوتا ہے
بربریت سے نہیں کوئی بھی جن کی محفوظ
ایسے لوگوں پہ درندوں کا گمان ہوتا ہے
برف دل بستی میں راشد انہیں بھیجا جائے
جن کا انداز بیاں شعلہ فشاں ہوتا ہے