میں اک شَمع ہوں، طوفان غَم نے ہے بُجھایا مُجھ کو
اِسی واسطے چند ایک مِزاج، ظالمانہ لۓ پھرتا ہوں
میرے سَبھی یار خوش باش جانتے ہیں مُجھ کو
اور میں اپنی ذات میں راز کا خزانہ لۓ پھرتا ہوں
سَلیقَۂِ گُفتار کا تو کوئ، اندازہ ہی نہیں مُجھ کو
رَسمِ زمانہ کی خاطر، بات کا بہانہ لۓ پھرتا ہوں
کہنے والوں نے جب کہا، کَم عَقل ہی کہا مُجھ کو
اَندیشہ ہے کہ حقیقت نہیں، فَسانہ لۓ پھرتا ہوں
چہروں سے جانچنے کا ہُنر، معلوم نہیں مُجھ کو
دِلوں کو پَرکھنے کا میں اب، پیمانہ لۓ پھرتا ہوں
جُنبِشِ لَب سے مُیسّر، کامیابی کا سہرہ مُجھ کو
اپنی خاموشی میں بھی اِک، دیوانہ لۓ پھرتا ہوں
وقت نے دکھاۓ ہیں ارادتاً چھوڑنے والے مُجھ کو
طَبیعت میں اب سے اپنی، مُنصِفانہ لۓ پھرتا ہوں
نہ سَفر کی خَبر، نہ مَنزِل کا کُچھ معلوم مُجھ کو
ذہن میں میرے بَس آخری، آشِیانہ لۓ پھرتا ہوں