کبھی ساون کا موسم ہو
کبھی رت بھی سہانی ہو
کبھی جو شام ڈھلتے ہی
ہوا ٹھنڈی کا جھونکا ہو
شھر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
جہاں گزرا ہو یہ بچپن
جہاں گزری جوانی ہو
وہ ہر لمحہ وہ ہر اک پل
اور ہر پل میں کہانی ہو
شھروہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
کبھی جو بوجھ ہو دل پر
تو یوں مل بیٹھ کر اکثر
دکھ سکھ بانٹ لیتے تھے
مگر اب کیا کریں یاروں
شہر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
محبت تھی اورالفت تھی
دلوں میں بھی عزت تھی
بڑے چھوٹوں کا تھا ادب
وہ آنکھوں میں مروت تھی
شہر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
جہاں تھے وہ غیر بھی اپنے
جہاں تھی دوستی سب سے
بھلائیں کس طرح سب کچھ
وہ دن اور وہ حسیں راتیں
شہر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
وہ ٹھنڈی شاموں کی طرح
جہاں کے لوگ ٹھنڈےہیں
اور سہانی صبح کی طرح
وہ جب بھی مسکراتے ہیں
شہر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
لوگ ہیں بھولے بھالے سے
بالکل سیدھے بالکل سچے
چالاکی اور ہوشیاری بھی
شامل نہیں ہےگھٹی میں
شہر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے
تمنا اتنی سی ہے را ہی
سانس شھ ہے آنی جانی
جب ہوں بند یہ آنکھیں
ملے اپنے شھر کی مٹی
شھر وہ یاد آتا ہے
وہ اکثر یاد آتا ہے