صبح اپنی زندگی کی آج تک ہو نہ سکی
بچھڑا ہوگا جس بھی پل وہ وقت وقتِ شام تھا
وہ تمنّا جس کی خاطر چھوڑ دی اپنی وفا
اس تمنّا کی وفا میں کوئی نہ انعام تھا
دل تھا ٹھہرا خواہشوں پہ آج سے پہلے بھی کیا
سوچ میں تیری خُدا تھا یا ہمیشہ رام تھا
کس کے کہنے پہ تُو میرے ساتھ ہی چلتا رہا
توڑ دیتا عہد اپنا گر تجھے بھی کام تھا
وہ بھی عامر بِک گئے تھے جو کبھی انمول تھے
نام ان کا مٹ گیا ہے جن کا چرچا عام تھا