صدائیں حق کی بلند کرنا کبھی نہ سر کو جھکانا ہے
جو ٹمٹماتے چراغِ حق ہیں انہیں کو اب تو بچانا ہے
قدم قدم پر ملیں گے رہزن قدم قدم پر رکاوٹیں
قدم کبھی ڈگمگائے نہ بس اسی کو لازم بنانا ہے
یہ راہ گرچہ کٹھن بہت ہے مگر اسی پر تو چلنا ہے
ارادے گر اپنے پختہ ہوں تو پہاڑوں کو مات کھانا ہے
اگر نہ احساسِ کمتری ہو تو پار نیّا اترتی ہے
رہے جو ذوقٍ طلب تو منزل کبھی بھی نہ دور پانا ہے
کبھی تو آتش کبھی تو دریا کبھی تو چشمہ ابل گیا
یقیں کی قوت سے ہی تو تاثیر بھی تو شے کی مٹانا ہے
کبھی ہوائیں چلیں مخالف تو ڈر نہ ان سے کبھی بھی ہو
انہیں میں پلنا کبھی تو سیکھو نہ ان سے اب خوف کھانا ہے
ستمگروں سے یہی گزاش تو اثر کی جا بجا ہی ہے
ملے صلہ ہی اسے جہاں میں جسے ستم ہی تو ڈھانا ہے