جب بھی چلے حالات کے گیسو سنوارنے
کچھ اور رنج و غم لگے ہم کو پکارنے
کس درجہ بے سکوں ہیں محبت کے بعد ہم
صدیاں غموں کی سونپ دیں دو دن کے پیار نے
ساحل پہ بھی حیات تھی اک مرگ ناگہاں
آئے ہیں پھر طوفان میں کشتی اتارنے
اب موسم خزاں کے رہیں کیوں نہ منتظر
ویران کر دیا ہے چمن کو بہار نے
رسوا تھے پر نہ اتنے ہوئے جب سے تنگدست
تھوڑا بھرم بھی رہنے دیا نہ ادھار نے
دور فغاں میں آہ بھی بھرنے پہ ہے سزا
مشکل ہیں اب تو زیست کے دن بھی گزارنے