صدیاں گذر گیںٔ ہمیں خود سے ملے ہوۓ
اِس قلبِ تار تار کا دامن سِلے ہوۓ
اُن سے لِپٹ کے ہم کو نہ رونا ہوا نصیب
سینے میں دفن ہجر کے شکوے گلے ہوۓ
شعر و سخن کی محفلیں ، شامیں وہ سُرمییٔ
اب تو خیال و خواب سبھی سلسلے ہوۓ
چلنے کو ساتھ ہم ہی نہ تیار ہو سکے
ہر بار گو روانہ کییٔ قافلے ہوۓ
جو بن پہ آج حسن ہے شامِ بہار کا
کلیاں چٹک رہی ہیں تو گلُ ہیں کھلے ہوۓ
مامور ہیں جو میری حفاظت پہ رات دِن
ہیں اندرونِ خانہ عدوُ سے ملے ہوۓ
بدلے میں چاہتوں کے ملیں نفرتیں ہمیں
کچھ اِس طرح نصیب وفا کے صلے ہوۓ