اک تسلسل تھا جسے توڑا ہے ظالم وقت نے
سیدھے راستوں کو موڑا ہے ظالم وقت نے
وقت کی اٹھکھیلیوں سے ہم پریشاں ہو گئے
ہم کو کیسے موڑ پہ چھوڑا ہے ظالم وقت نے
دوسروں کا ساتھ وہ کیونکر نبھائے گا جسے
اپنے قابل نہیں چھوڑا ہے ظالم وقت نے
کاش ہم ہی جان جاتے وقت کی چالاکیاں
تو نہ کہتے ہم کو بھنبھوڑا ہے ظالم وقت نے
سو چکی تھیں اپنی سوچیں نیند کی آغوش میں
اب انہی سوچوں کو جھنجھوڑا ہے ظالم وقت نے
پھر اجاگر ہو گیا میرا جنوں میری لگن
پھر سکوت جان کو توڑا ہے ظالم وقت نے
ہر طرف ہے شور میری گونجتی آواز کا
میری خاموشی کا بت توڑا ہے ظالم وقت نے
ہم بھلا کیوں غیر کو الزام دیں گے بےوجہ
اس مقدر کو فقط پھوڑا ہے ظالم وقت نے
خدا کا شکر ہے میرا نصیب اچھا ہے
محض تکمیل شعر قافیہ جوڑا ہے ظالم وقت نے