ظلمت کے اندھیرے کو مٹا پاؤ تو جانو
انسان کو انسان بنا پاؤ تو جانو
کاغذ کے تو تم پھول کھلا لوگے ہی لیکن
اس پھول مے خوشبو جو اگر لاؤ تو جانو
تاریکی مٹانے کو تو جگنو بھی مٹا دے
سورج کی مگر ایک کرن لاؤ تو جانو
سلجھے ہوئے راستے سے گزرتے تو سبھی ہیں
الجھے ہوئے راستے سے گزر جاؤ تو جانو
بربادی جو گر چاہو سمندر بھی مٹا دو
شبنم کی جو ایک بوند بنا پاؤ تو جانو
پانے کو تو منزل کی بدی چاہ ہے رکھی
منزل کو اپنے دار پی ہی لے او تو جانو
جانے کو تو تم چاند پہ بھی جا ہی چکے ہو
چوکھٹ پی ستارے کو بلا پاؤ تو جانو
نعمت تو ہزاروں ہے تیرے نوش کو لیکن
خود بھوک مے بھوکے کو کھلا پاؤ تو جانو
یویوں چاک گریباں تو پھر ا کرتے سبھی ہیں
اصغر سا جو دیوانہ دکھا پاؤ تو جانو