ظلم اور جبر، نئے سال چلا جائے گا
شائد انصاف کا اب کال چلا جائے گا
یاد رکھنا ہے کہ ماضی تو ہے بےکار گیا
بھول جائیں گےتو پھر حال چلا جائے گا
خوش نصیبی وہ ملے گی ، جو ہوئی قسمت میں
کچھ نہیں ہو گا اگر خال چلا جائے گا
نغمگی شعر کی ہے بحر کی پابندی میں
ورنہ ہر گیت سے سُر تال چلا جائے گا
پھر سے جُڑ جائیں گے ٹوٹے ہوئے دل بھی اظہر
جو تھا شیشے میں پڑا بال، چلا جائے گا