ظُلمت کو مٹانے نکلے ہیں
ہم دیپ جلانے نکلے ہیں
صبح ِروشن کی اُمید لیے
راہوں کو سجانے نکلے ہیں
بیزار ہیں آنکھیں خوابوں سے
اب تعبیر کو پانے نکلے ہیں
نہی لمحہ بھی نفرت کےلیے
روٹھوں کو منانے نکلے ہیں
جنہیں حاکم سہواً مان لیا
وہ لوگ دیوانے نکلے ہیں
اب وقت نہیں ہے باتوں کا
کچھ کر دکھانے نکلے ہیں
فصل ِ خزاں کی سازش سے
گلشن کو بچانے نکلے ہیں
عمر گنوا دی راہوں میں
اب گھر کو جانے نکلے ہیں