عالمِ جاں کنی ہاتھ اُٹھا رہ گیا
ہونٹ پتھرائے حرفِ صدا رہ گیا
پنچھیوں کو ہوائیں اُڑا لے گئیں
خامشی حبس اور گھونسلا رہ گیا
منزلوں کی ڈگر کھو گئی تُو کدھر
راستے مِٹ گئے نقشِ پا رہ گیا
یُوں کُھلی آنکھ سے خواب دیکھا کیے
بند آنکھوں میں بس رتجگا رہ گیا
رقص کرتے ہُوئے وقت کی آنکھ پر
اشک لرزاں رہا کانپتا رہ گیا
اک صدائے درُوں بے صدا رہ گئی
بے نوا طائرِ خوش نوا رہ گیا
عاشی امید کے آبگینے نہیں
اب تو بس آخری بُلبُلا رہ گیا