عجب ہی پھول زردائے گلستاں میں
لگی ہو آگ جیسے گوہر ستاں میں
بھلا کس کو دیا جائے قیمتی ووٹ
نظر کوئی نہیں آتا اس جہاں میں
کسی انجان سے دل کی بات ہو تب
محبت کا جزیرہ ہو جب زباں میں
فقط اتنی سی مجھ کو ہے آس باقی
کبھی تو سہر ہوگی ہندوستاں میں
ہزاروں چوٹ کھانے کے بعد پھر بھی
محبت ڈھونڈ نے نکلے دل ستاں میں
ہوائیں سرد مرجھائی دھوپ یارو
گرجتے یوں نہیں بادل آسماں میں
جلا ہی دو کھنڈر اُن یادوں کے عبدل
رکھا ہی کیا مرے کل کی داستاں میں