عجیب حشر اُٹھا خلد میں، جب آدم زاد
بڑھا نقوشِ قدم چھوڑتا خلاؤں میں
دل میں یوُں اس کے خیال آتے ہیں
جیسے صحرا میں غزال آتے ہیں
ہم جو افلاک پہ ہہنچے بھی، تو کیا ہاتھ آیا
ہاں مگر خاک جو چھانی تو خُدا ہاتھ آیا
مری زندگی میں، یارب! کوئی ایسا پل تو آیا
ترے ابر بھی برستے، مرے بن بھی لہلہاتے
مَیں تری کھوج میں مبہوُت پھرا کرتا ہوُں
میں ترے پاس سے گزروں تو صدا دے دینا