وہ عدو جو آئے تھے کل یہاں
جو چھپے ہوئے تھے نقاب میں
دبے پاؤں نہ آئیں پھر کہیں
میرے شہر خانہ خراب میں
یہ عبادتیں،یہ سعادتیں،
یہ شہادتیں، ہیں انہی کا حق
جھکے سر خدا کی جناب میں
تو ہوں پاؤں جن کے رقاب میں
جو جوانی آ کے گزر گئی
تمہیں اس کا رنج بجا سہی
کبھی یہ سوال بھی تو اٹھے گا
تمہاری فتح کے باب میں
مگر ان کا حال بھی تو پوچھ لو
جو بیوہ ہوئی تھی شباب میں
جو بکھر گیا ہے گلی گلی
وہ لہو ہے کس کے حساب میں
کہیں جنگ فکر و غنا کی ہے
کہیں رنگ و نسل کی ہے کشمکش
یہ سارے اسی کے کرشمے ہیں
جو پڑھایا تھا تم نے نصاب میں
شاہ جی شاعر ہے دیوانہ سا
جو کہہ دیا کہا برملا
کہاں ہوں گے ایسے ہنر کہیں
کسی اور خانہ خراب میں