رفتہ رفتہ رسمِ قدرت یوں بدل گئی
طلوع ِ شام ہوگئی اور سحر ڈھل گئی
گناہ کی سیاہی سے بدل گئے چہرے
چمکتی پیشانیوں کی چمک جیسے دُھل گئی
تُل رہے ہیں عمل فیصلوں کے ترازو میں
جزا و سزا کی عدالت عرش تلے کھلُ گئی
ظلم کی آگ سے فروزاں نفرت کے دیپ
حرارت ِ شر سے شمعِ محبت پِگھل گئی