نفرت نہ بے رخی نہ ہی دھتکار چاہیے
عزت ، خلوص ،دوستوں کا پیار چاہیے
ہاں تھوڑے میں بھی خوش ہوں بہت زندگی کے ساتھ
پیسہ و کاروبار نہ سرکار چاہیے
انکار کر کے چھوڑ دیں مفلس ہوں مین بہت
کہتا ہوں کب کہ آپ کا اقرار چاہیے
یہ سائیکل ہی میرے لیے مرسڈیز ہے
مجھ کو نہ کوئی قیمتی سی کار چاہیے
شہرت و پیسہ آدمی کے لونڈی اور غلام
ہونا بس اس کو تھوڑا سا فنکار چاہیے
پھولوں کو اپنے پیروں سے دیتا ہے جو مسل
چبھنا تو اس کے پاؤں میں پھر خار چاہیے
چٹنی ہی کھا کے میرا گزارہ ہے دوستو !
مجھ کو نہ نقد اور نہ ادھار چاہیے
آسان راستوں پہ چلے کچھ نہ مل سکا
اب تھوڑا سا تو راستہ دشوار چاہیے
پھولوں کی قدر آپ نہ کر پائیں گے حضور
پھر آپ کو کیوں موسم بہار چاہیے ؟
تنہا ہی زندگی کو کرے کب تلک بسر
انسان کو تو زیست میں گھر بار چاہیے
دشمن اگرچہ وار کرے آدھی رات کو
رکھنا تو خود کو دن میں بھی تیار چاہیے
جنگ جیتنے کے واسطے پر عظم ہیں نہت
بس اک ایوبی سا ہمیں سالار چاہیے
سرمایہ دار ملک میں نہ حکمران ہوں
نہ ہی کوئی وڈیرہ و سردار چاہیے
جو دل دکھائے ہو نہیں سکتا وہ میرا دوست
کرنے کو دوستی مجھے دلدار چاہیے