سمندر اپنے من مانے کنارے خود بناتا ہے
غضب کا نقش گر ہے یہ
بنائے نو بہ نو منظر کہیں بھی
اپنے من چاہے
زمیں ہو نرم و سبزہ رو
کہ وہ سنگیں چٹانیں ہوں
عجب اک والہانہ پن سے ملتا ہے وہ ہر اک سے
کہیں یہ دور تک پھیلائے اپنی نیلگوں چادر
تماشا دیکھتا ہے آپ اپنی بے کرانی کا
کہیں اپنے بنائے منظروں کے رنگ میں سمٹا
پڑاجادو جگاتا ہے
عجب ہے اپنی خصلت میں
عجب ہے اپنی طینت میں
قدم چھوتا ہے ان کے
جو اسے آزاد رہنے دیں
مگر جو راہ روکیں چاہیں اس کو قید کر لینا
مٹا دیتا ہے ان کو پے بہ پے موجوں کی یورش سے
غضب ہے اپنی قوت میں
عجب ہے اپنی وحشت میں
یہ ہر ساحل پہ بکھرے ریت کے اوراق دیکھے ہیں
یونہی لکھتا ہے وہ اپنی جنوں خیزی کے افسانے
میری جاں
عشق وحشت میں سمندر سے فزوں تر ہے
سو اس وحشی کو بھی اپنے کنارے خود بنانے دو