عشق روشن ہے جنکےسینوں میں
دیکھے انوار ان جبینوں میں
دیے روشن، نیاز اور ہجوم
بات کچھ خاص تھی مکینوں میں
چشمِ بینا پرکھ ہی لیتی ہے
فرق ذروں میں اور نگینوں میں
صبر، حلم، شرم، اور حیا
حسن یہ ہی ہے نازنینوں میں
تیری ٹھوکر میں ماہ و انجم تھے
کھویا کیون عارضی حسینوں میں
فصل الفت کی کیسے کاٹو گے؟
بوئی نفرت تھی جن زمینوں میں
زہر پھیلا تو یاد آیا کہ
سانپ پالے تھے آستینوں میں
عام ہے جھوٹ،دغا، فریب و مکر
ہے حکومت ابھی کمینوں میں
جونہی ساحل سے نکلے ڈوب گئے
کوئی تو نقص تھا سفینوں میں