یاوہ گوئی سے بڑھے پیار، ضروری تو نہیں
عشق میں لب سے ہو اظہار، ضروری تو نہیں
لفظ معقول ہوں تو خود ہی اثر رکھتے ہیں
بحث کرنی پڑے ہربار، ضروری تو نہیں
قلبِ معصوم، تمنّاؤں سے رنجُور ہوا
پھر کسی کا ہو طلبگار، ضروری تو نہیں
لبِ خاموش سے خَفگی بھی جھلک سکتی ہے
ہر خموشی بنے اقرار، ضروری تو نہیں
دھن، دولت سے بھلا کس کو ملی ہے چاہت؟
جنسِ نایاب اور خریدار، ضروری تو نہیں
قصرِ شاہی ہمیں سونے کا قفس لگتا ہے
خوشی دیں دَرہم و دِینار، ضروری تو نہیں
لہو جب آنکھ سے ٹپکا تو بنا تاج محل
سیِم و زر سے بنے شاہکار، ضروری تو نہیں
دِل نے اُس شوخ کی مُورت کو بسا رکھا ہے
دِل ہی بن جائے ساہُوکار، ضروری تو نہیں
ہم نے انسانوں سے اُلفت کا چلن اپنایا
ہم کو بدلے میں ملے پیار، ضروری تو نہیں
کر کے رحمت پہ بھروسہ یہ قدم اُٹھے ہیں
راہِ سرور رہے دُشوار، ضروری تو نہیں