عشق کی رہ پُر خار ہے سجنا
دو دھاری تلوار ہے سجنا
اب تو تلوے کاٹ چکے ہیں
اب مُڑنا دُشوار ہے سجنا
ہر رستے پر انگارے ہیں
منزل منزل نار ہے سجنا
دیپک راگ ہے دھڑکن دھڑکن
آنکھوں میں ملہار ہے سجنا
ہاتھوں میں بس کچا گھڑا ہے
زوروں پر منجھدار ہے سجنا
عشق کہاں رکھے دروازے
ہر جانب دیوار ہے سجنا
عشق انالحق کہلاتا یے
منزل اس کی دار ہے سجنا
شاہوں کے سر بھی جھک جائیں
عشق ایسا دربار ہے سجنا
عشق حکومت عشق رعایا
عشق مری سرکار ہے سجنا
جُزو بھی کُل بھی عشق ہے عاشی
عشق مرا سنسار ہے سجنا