عطائے درد کے منصب پہ برقرار ہیں ہم
تلاشِ لمحہ تکمیلِ اختیار ہیں ہم
مداوا ہونے میں تاخیر ایک مجبوری
مگر یہ لگتا ہے کیونکر گناہ گار ہیں ہم
ہم آئینہءتمنا کے سامنے بے بس
جھکائے آنکھیں کھڑے ہیں کہ شرمسار ہیں ہم
یہ سرخ راہ گواہی ہے درد چھالوں کی
کہ پا بہ خار سفر میں ہیں بے قرار ہیں ہم
شریکِ کرب و محَن ہم، شریکِ رنج و خلش
شریکِ ساعتِ خوش کُن، ہم انتظار ہیں ہم
جو ایک بار ہی کٹ جائیں درد بھی کم ہو
جو بارہا چلے جاں پر وہ کُند دھار ہیں ہم
جو حالِ شہرِ دروں ہے نہ کوئی بھی دیکھے
سبھی کہیں ہُوا کیا، کیسے سوگوار ہیں ہم
اسی یقیں نے تو عاشی ہمیں رکھا زندہ
جو درد جھیلے ہے ہمراہ, اُس کا پیار ہیں ہم