علامہ اقبال کا قوم سے شکوہ
کہہ گئے کل رات میرے خواب میں حضرت اقبال
“قوم سے پُوچھو، کیوں میری ذات پہ الزام ہے؟
انتہائی بدوضع، بیکار اور گھٹیا اشعار
لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اِقبال کا کلام ہے
حالانکہ اشعار میرے کہتے ہیں خود برملا
مُسلم اُمہ کی محبت، اَقبال کا پیغام ہے
مقصدیت اور اصلاح ہیں میرے لازم مضمون
کردار کی بُلندی ہی آغاز و انجام ہے
کیوں نہیں پڑھتے، میرے اشعار، میری کُتب سے
بے سروپا شعر کیوں زبانِ زدِ عام ہے؟“
سُن کے اُن کی گُفتگُو، میں نے کہا افسوس سے
“آج کل ہر فارغ شاعر کا خیالِ خام ہے
ہونا ہے مشہور تو اقبال کا بس نام لو
ہر کسی کے دِل کو چھُو لے، یہ وہی تو نام ہے
ذکر اب اِقبال کا فیشن میں ہے شامل مگر
فِکر تھی اقبال کی کیا؟ کس کو اِس سے کام ہے؟
زاغ فطرت لوگ کب شاہیں کی مانند ہو سکیں؟
ہاں بزعمِ خُود اُنہیں ہر بات کا اِلہام ہے
شعر میں سکتہ ہو یا شاعری بے وزن ہو
نام پہ اِقبال کے بِکتا ایسا کلام ہے
قاری بے چارہ بھلا کیونکر پڑھے اصلی کلام
جبکہ دو نمبر اِقبالوں سے اُسے آرام ہے
ذکر شعروں کا تو چھوڑیں، اب ہے حالت قوم کی
قُرآن و حدیث کی تفسیر میں ابہام ہے
مُستند ذرایع سے تصدیق کرے کون اب؟
قوم کو بس فارورڈ میسج کا اِحترام ہے
کاش میری قوم سوچے، مفہوم ہے حدیث کا
‘سُنی سُنائی کو پھیلانا، شیطان کا اِکرام ہے
جھوٹی بات گھڑ کے کہنا، یا بڑھانا سُن کے بس
مُفسدوں، مُنافقوں اور جاہلوں کا کام ہے‘
اے میرے مولا، مُجھے توفیق دے عمل کی بھی
اپنی اور سب کی اصلاح، مومن کا انعام ہے
آج سرور نے کہا جو اُس پہ تھوڑی فکر ہو
تب ہی واللہ خُوب اپنی ہستی کا انجام ہے“