عہدِ نو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں ڈھنگ
دیکھ کر اُن کی ادائیں، عقل رہ جاتی ہے دنگ
نِت نئے انداز میں یوں محو ہیں پیر و جواں
جس طرح کہ ڈولتی ہے، ڈور سے کٹی پتنگ
گھیر میں شلوار کے کوئی تو لائے پورا تھان
آدھ گز کپڑے میں کوئی سُوٹ کو کر ڈالے تنگ
کسی کے اِک سُوٹ سے، اِک خانداں ڈھانپے سِتر
جسم کے اعضاء کسی کے باہمی مصروفِ جنگ
ہائے عُنقاء ہوگئیں حسینوں کی رِدائیں اب
جن کی اِک ہلکی جھلک سے دل میں بجتے جلترنگ
وہ حیاء جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نُور
لے اُڑی اُس نِکہتِ گُل کو یہ تہذیبِ فرنگ
وہ تنّوع جو کہ جّدت کو بناتا تھا حسیں
اندھا دُھند تقلیدِ مغرب سے لگا بیٹھا ہے زنگ
کوئی پھٹی جینز کو سمجھا ہے ہستی کا عروج
خواہشِ عُریاں نے ہے فیشن کا پایا عُذرِ لنگ
محو ہوتا جارہا ہے دستِ حنائی کا ذوق
مغربی یلغار سے پھیکا پڑا، مشرق کا رنگ
میں مُخالف تو نہیں جدّت پسندی کا مگر
کھا نہ جائے مشرقی اقدار کو پَچھَمی پُلنگ
مختصر اتنا کہ سرور، احتمال یہ بھی رہے
تُند صحرا کے لئے ہوتا نہیں ہرگز کَلَنگ
(کَلنگ = ہنس)