لہو رنگ ہے زمین میری
سیاہ رنگ آسمان میرا
یہ سرخی، لہو کی سرخی ہے
یہ سیاہی دھوئیں کے بادل ہیں
رات گہری ہے
دن دھندلا ہے
اپنا جہاں کیسا بدلہ ہے
خوشیاں رخصت ہوئیں گھر سے
غم کے بادل ہیں کھل کے یوں برسے
عید آئی ہے پھر اداس ہوکے
رت بدلی ہے دل نہیں بدلے
تحفے خوشیوں کے اب نہیں باقی
غم بھیجوں سمیٹ کر ساتھی؟
مگر خلوص کا نہیں شیوہ
کہ دوست کو عید پہ بھی غم بھیجا
ایک تحفہ میرا حقیر سا ہے
دوست تیرا ذرا فقیر سا ہے
ان چوڑیوں میں دھانی رنگ ہوں گے
تم جو پہنو گی ہم بھی سنگ ہوں گے