غاٸب کبھی چینی کبھی ، اَناج کرتے ہیں
یہ کیا لوگ ہم پہ ، راج کرتے ہیں
عوام جا کر کسے سناٸیں دُکھڑے
یہاں حاکم خود ، احتجاج کرتے ہیں
کل کے حِزبِ مخالف ، طعنہ زن
سب وہی کام ، آج کرتے ہیں
ہر آنے والے نۓ چہرے یہاں
بِچھلوں سے بڑھ کر ، محتاج کرتے ہیں
گلستاں بھرا ہوا ہے پرندوں سے
جانے کیوں کم ، اندراج کرتے ہیں
باغباں بن کر غاصب یہاں
چمن کو ، تاراج کرتے ہیں
قلم اور بندوق بِک کر ”اخلاق“
ہمیں جہاں میں ، بےلاج کرتے ہیں