ہوا مکدر بھی ہے ناخوشگوار بھی ہے مگر
میری امید کا ہرا بھرا ہے اب بھی شجر
ستم گروں نے ستم پر ستم کئے ہیں مگر
نہیں انجام کی اپنے ستم گروں کو خبر
ہو کے تائب ستم شعاری ظالموں چھوڑ
کبھی نہ چین ملے گا تمہیں زمین کے اندر
دراز ڈور کھینچ لے گا میرا رب جلیل
آہ مظلوم کی، دِکھائے گی جب اپنا اثر
بھلا بیٹھے ہو انسانیت کے سارےسبق
تمہارے نام مٹا دے گا، نہیں باز آئے اگر
قضا کی گود میں جانے سے پہلے توبہ کر لو
سوچ لو ورنہ کیا ہوگا تمہارا ابدی حشر
سوچنا چاہئیے عظمٰی سبھی کو یہ پہلے
نصیب کس طرح ہو گی ہمیں درخشاں قبر