غزل پہ فکر کو جب ہم نے یوں حصار کیا
نگاھ شوق نے کاگز کو روخ یار کیا
رخ حسین پہ قام نے پھر شنگار کیا
لو ہمنے شوق سے صدقہ دل نصار کیا
زباں تو پاس ادب کچھ نہ کہ سکی وائز
وگرنہ ہمنے بھی کوشش ہزار بار کیا
مریض غم کو کہاں ضبط سوز دل کی خبر
شکستہ پائی نے ہمّت کو تار تار کیا
جواب عشق فریب نظر تو لا نہ سکی
جو وادا اسنے کیا ہم نے اعتبار کیا
بلا کے بن مے جو فرقت نے بیقرار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
نزاکتیں جو پریشان مہوے خاب ہوئی
سپرد شانہ کو ہمنے بھی ظُلف یار کیا
رہا ہے طائر دل داشت عشق میں اصغر
نہ آیا حد میں کسی کے نہ ہی شکار کیا