یا رشتہ سمندر کی اداؤں سے جوڑ لو
یا کشتیوں کو ریت کی جانب ہی موڑ لو
راہ وفا میں یچ ہے حاصل کا تقاضہ
اے قیس آرزوؤں کے کاسے کو پھوڑ دو
دامن میں رہے گردش ایام نہ اس کے
جذبوں سے چلتے وقت کی صدیاں نچوڑ لو
پھر آ رہے یں لوَ کے تھپیڑے بکھیرنے
بہتر ہے اس گلاب کو زلفوں میں جوڑ لو
آئیں گی ساری منزلیں قدموں کو چومنے
بس شرط ہے خود ساختہ زنجیر توڑ دو