غزل کہنے کے ہیں جب سے ضوابط سمجھے
کیا ہیں فکر و بیاں کے باہمی روابط ، سمجھے
اس دشتِ دہر میں، دل کے لہو کو جلا کر ہم
شعروں میں نہاں جزبوں کی صداقت سمجھے
مصروں میں بحر تھی نہ شعروں میں وزن تھا
تو سر ِبزم لوگوں کے حرفِ ملامت سمجھے
فکروخیال کو لفظوں کا حسیں ملبوس دے کر
معنی کے سمندر میں اُترے اصل حقیقت سمجھے
جس کو فرط ِ شوق ہے غزل کہنے کا رضا جی
کسی رہبر سے ردیف وقافیہ کی حکمت سمجھے