غمگین بے مزہ بڑی تنہا اداس ہے
تیرے بغیر تو مری دنیا اداس ہے
پھیلا ہوا ہے رات کی آنکھوں میں سوز ہجر
مہتاب رت میں چاند کا چہرہ اداس ہے
لو پھر سے آ گیا ہے جدائی کا مرحلہ
آنکھیں ہیں نم مری ترا لہجہ اداس ہے
بارش بہا کے لے گئی تنکوں کا آشیاں
بھیگے شجر کی شاخ پہ چڑیا اداس ہے
شہزادہ سو گیا ہے کہانی سنے بغیر
بچپن کے طاق میں رکھی گڑیا اداس ہے
آنکھیں منڈیر پر دھرے گزری شب وصال
لپٹا ہوا کلائی سے گجرا اداس ہے
سورج لپٹ کے جھیل کے پانی سے رو دیا
منظر فراق شام کا کتنا اداس ہے
کس کو ہیں راس ہجر کی کٹھنائیاں سحرؔ
جتنا قریب ہو کوئی اتنا اداس ہے