رت بدلی دھرتی نیا روپ دھارنے کو ہے
گل کی ہنسی بلبل کا غم اتارنے کو ہے
کلیاں ہیں گویا نازنیں کے لب ملے ہوۓ
پیڑوں کے جھنڈ ہیں گیسو سنوارنے کو ہے
جادو سی اسکی چال میں وہ بحر کا سکوت
آنکھوں کے بیچ بھنور کو سدھارنے کو ہے
ماں سےزیادہ پیار ہے یزداں کو بشر سے
بھالے کو تولے فلک ہمیں مارنے کو ہے
اس پر ہے روک اور مجھے وحشی ڈراتے ہیں
یہ سب مزید شوق کے ابھارنے کو ہے