غم بھی کتنا عجیب ہوتا ہے
دینے والا بھی اکثر رقیب ہوتا ہے
لگ گیا زندگی کو زَنگِ عشق
زَنگ بھی کتنا بے دید ہوتا ہے
وجود سے نکلتا نہیں جو کسی جا
وہ شخص کتنا عجیب ہوتا ہے
جو پَا کر اَز دَست دَادن مخبت
بَدشانسی وہ بد نصیب ہوتا ہے
تم خوش ہو تو خوش ہی رہو خدا رہ
عشقِ غم بھی بڑا بے غم ہوتا ہے
اب میری تصویریں نہیں تجھے پَذِیرَفته شد
بَشتر آوارہ پنچھی بی خانما ہوتا ہے
تم لوٹو بھی تو اب قبول نہیں ہو مجھے
بے ایمان شخص بے اعتبارہ ہوتا ہے
جسے عادت ہو محبت کی آڑ میں وقت گزاری کی
بے ذوق رقِیب آوارہ ہوتا ہوتا ہے
تجھے مانگا خدا سے رات کے اس پہر نفیس
جب عطاوں کا فلک سے نزول ہوتا ہے