دہکتے ہیں مچلتے ہیں سلگتے ہیں پگھلتے ہیں
غم تنہائی میں اکثر میرے دن رات جلتے ہیں
اکیلے پن کی سوغاتیں ہمیشہ پاس رہتی ہیں
غم تنہائی کو لے کر ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں
اجالوں اور اندھیروں میں کوئی تفریق نہ رہی
سویرے بھی تنہائی کی راتوں میں ڈھلتے ہیں
خیابانوں میں صحرا میں کبھی جنگل بیاباں میں
غم تنہائی کی وحشت سے گھبرا کر نکلتے ہیں
ہمیں عظمٰی یہی تنہائی تم سے دور رکھتی ہے
وگرنہ ہم تمہیں ملنے کو اکثر ہی مچلتے ہیں