غم یار کو تو نے غم جاں بنا لیا ہے
اس بےوفا کا غم دل سے لگا لیا ہے
برگ و گل سے ناطہ توڑا تھا اس لئےہی
دامن کو اپنے جو کانٹوں سے سجا لیا ہے
غیروں کی طرح وہ بھی ہم سے بچھڑ گیا
جس کے لئے ہم نے زمانہ دشمن بنا لیا ہے
تو نہ ساتھ چل سکے گا معلوم تو تھا یہ مجھکو
میں نے پھر بھی تمھیں اپنا ہمسفر بنا لیا ہے
دیکھی ہے ہم نے واجد تیری عجیب فطرت
دشمن کو بھی تو نے گلے سے لگا لیا ہے