فریبِ زیست کا کیا انتشار سمجھے گا
صدی سے قید کہاں اختیار سمجھے گا
مرے زوال کی سادہ سی یہ کہانی ہے
انّا پرست کہاں دار، نار سمجھے گا
تمہارے ہونے سے بے جا سکون ملتا ہے
یہ کیفیت تو کہاں، مرے یار سمجھے گا
شراب پی کے بہکتے نہیں سالارِ شہر
جو ڈگمگایا، کہاں وہ خمار سمجھے گا
فقیہہِ شہر، مجھے نہ سکھا ثواب،عذاب
اِس عمرِ رفتہ کا تو کیا فشار سمجھے گا
یہ داستان مَحبت یوں ہی ختم ہوگی
نہ میں کہوں گا، نہ وہ میرا پیار سمجھے گا