فضائے دہر، پربت، وادیاں دیکھ
نظر ہے تو زمیں تا آسماں دیکھ
بہر سو جلوہء پیر مغاں دیکھ
کبھی رندوں کا ہو کے ہم زباں دیکھ
یہیں سے اب بہار گلستاں دیکھ
اسیروں میں، قفس کے درمیاں دیکھ
گلستاں میں نظاروں کا مزا لے
شباب و حسن کی نیرنگیاں دیکھ
قیامت ہے تری آنکھوں میں پنہاں
مری جانب نہ یوں اے بد گماں دیکھ
جسے ڈھونڈے ہے ہر اک سمت ، اس کو
ذرا گردن جھکا کر او میاں دیکھ
شب تنہائی ہے، بار الم ہے
مسافر کیا کرے، جائے کہاں ؟ دیکھ
تپ فرقت نے دل میرا جلایا
کروں صنح و مسا کیسی فغاں ، دیکھ
تڑپتے ہیں پڑے بسمل یہاں پر
ادھر کو بھی تو اے جان جہاں دیکھ
کوئی کیسے لٹاوے ہے دل و جان ؟
کبھی رومی کی پڑھ کے داستاں دیکھ