فقط کہنے کو میرے ہو ہوا ہے تم سے حاصل کیا
کوئی تم سے بڑا ہو گا جہاں میں میرا قاتل کیا
جہاں مایوسیاں بڑھ جائیں اک لمبے سفر کے بعد
تو اس کو چھوڑ کر آگے چلیں کہ ایسی منزل کیا
یہ جانا رنج سے خوگر کا بھی مٹتا نہیں ہے رنج
بڑھے اور مار نہ ڈالے تو وہ انساں کی مشکل کیا
سفر میں آبلہ پائی، ہے رسوائی و تنہائی
تو طے کر پاؤ گے تم عشق کے سارے مراحل کیا
مرے باطن سے واقف ہو نہ پایا راز داں میرا
جو دل کے بھید نہ جانے تو مانوں پیر کامل کیا
میں سمجھاتا ہوں اس کو اب ذرا سے سخت لحجے میں
دلیلوں سے سمجھتا ہے جہاں میں کوئی جاہل کیا
جو اپنے ہی عدو ہوں غیر سے پھر کیسی امیدیں
اگر بن جائے خود طوفاں بچائے گا وہ ساحل کیا
کیفیت جذب و مستی کی جو مجھ پی چھا گئی زاہد
تصوف کے مضامیں ہو رہے ہیں مجھ پہ نازل کیا