فقیر , شہر میں ایسے کبھی صدا دیں گے
تمام شہر کے دِیوار و دَر ہِلا دیں گے
دِیئے غریب کی کُٹیا کے چھیننے والو
دِیئے تُمہارے سبھی گھر کو ہی جلا دیں گے
ہماری کُٹیا جو تَرسی کبھی چراغوں کو
نہ دیں گے انس تو جُگنُو ہمیں ضیا دیں گے
کبھی تو عرش پہ بیٹھا بھی بول اُٹھّے گا
خُدا یہ فرش کے کب تک ہمیں سزا دیں گے
ستا نہ پاۓ گا وہ عُمر بھر کسی کو بھی
سِتم ظریف کو بسمل یُوں بدعا دیں گے
صدائیں حق کی سدا مقتلوں میں گُونجیں گی
کٹا کے سر بھی سدا حق کی ہم صدا دیں گے
کہ مِٹ تو جائیں گے دُنیا سے ہم بھی اے باقرؔ
مگر یہ ظُلم کا نام و نشاں مِٹا دیں گے