اب طے ہے کہ دھاڑیں مار کے رویا جائے
چھوڑ پھول، آنگن میں کانٹوں کے سویا جائے
چاند راتوں کے خنک بھرے پہروں میں
گیلی پلکوں سے گاؤ تکیے کو اپنے بھگویا جائے
آنکھوں میں جھلمل کرتے ہوئے موتیوں سے
وقتِ سحر اب چہرے کو اپنے دھویا جائے
بے حس، بے نیاز ہو کر دنیا کی رنگینیوں سے
لمحات میں درد و کرب کے خود کو ڈبویا جائے
ضبط کی کربناک شدت سے تھک ہار کے
شکن زدہ بستر میں خود کو سمویا جائے
چھوڑ کر پرائی دنیا کے پرائے لوگوں کو پارسؔ
تیری یاد کے ہجوم میں خود کو کھویا جائے