قافلہ خوشبو کا جب رنگِ صبا ہو جائے گا
موسمِ گل میں ہر اک دل بانورا ہو جائے گا
ایک لمحے کی خوشی کو بھی غنیمت جانئیے
کیا خبر اگلے ہی پل میں کیا سے کیا ہو جائے گا
آج تیرا ، کل مرا ، پرسوں نجانے کس کا ہو
وقت کا ہے کیا بھروسہ بیوفا ہو جائے گا
لوگ ننگِ آدمیت اب سمجھتے ہیں جسے
مسندِ دولت پہ آ کر پارسا ہو جائے گا
اس کی مجبوری کہ میرے ساتھ کرنی ہے بسر
مجھ کو یہ امید وہ اک دن مرا ہو جائے گا
چوٹ تازہ ہے ابھی کچھ وقت تو درکار ہے
رفتہ رفتہ رنج سے دل آشنا ہو جائے گا
مانتی ہی میں گئی جس شخص کی ہر بات کو
کیا خبر تھی ایک دن میرا خدا ہو جائے گا
روئے گا دل ہر گھڑی عذراؔ کسی کی یاد میں
آنکھ کا کاجل بھی ساون کی گھٹا ہو جائے گا