قدرتی نظارے بکھرے ہیں چار سو
نشیب سے فراز تک روبرو دو بدو
خوش نوا پرندوں کے دلکشا ترانے
خالق کی نعمتوں کا شکرانہ کو بکو
دل لبھا رہی ہے آراستہ پھولوں کی
نزاکت و رعنائی رنگینی و خوشبو
صحرا و سمندر کی گہرائی و وسعت پہ
کرتے ہیں غور و فکر کچھ دیر من و تو
افلاک کی وسعت میں کیا راز نہاں ہیں
ڈالیں کمند ہم بھی کرتے ہیں جستجو
ہیں دلفریب کتنے قدرت کے نظارے
لگتا ہے ستارے بھی ہیں محو گفتگو
چشموں کا میٹھا پانی جھرنوں کی راگنی
کچھ یوں سرور بخش جیسے جام اور سبو
سبز میدانوں پہ شبنم کے موتیوں کی
مسحور کن بہاریں پھیلی ہے چار سو
جنگل کے باسیوں کے انداز نرالے
خونخوار درندے کہیں اور کہیں آہو
کائنات میں زمیں سے آسماں تک
بس ایک صدا گونجے اللہ ھو اللہ ھو
قدرتی نظارے بکھرے ہیں چار سو
نشیب سے فراز تک روبرو دو بدو