قدم قدم پہ اونچے کوھسار ڈھونڈتا رھا
ھر وقت دنیا میں وفادار ڈھونڈتا رھا
عرفان زات کے حصول کی خاطر
جہان نو کے آثار ڈھونڈتا رھا
بجھا چکی تھی ھوائے تیز جن کو
ان چراغوں کے شرار ڈھونڈتا رھا
خزاں کی رت میں سوکھے پتوں کے بیچ
ھر گلستان میں اک بہار ڈھونڈتا رھا
غم وآلام کے مخدوش حالات میں بھی
میں شام انبساط کا انتظار ڈھونڈتا رھا
ان آزاد پنچھیوں کی اڑان دیکھ کر
اوج ثریا کی آبشار ڈھونڈتا رھا
حسن خاک کے زرے ھرطرف جب اڑے
میں اس غبار کا فشار ڈھونڈتا رھا