اے غمِ دل تو ہی بتلادے میراتھا کیا قصور
نہ مزا جینے میں باقی ہے نہ مرجانے میں ہے
ایک دھوکہ ہے تیری محفل میں اے ساقی میرے
کیا خبر تھی جامِ عشقِ یار پیمانے میں ہے
اب نہیں ہے چینِ دل اور اب نہیں باقی سکوں
نہ ہی مخفی سے قرارِ جاں نہ بتلانے میں ہے
یھ قفس ہے میں مفقس ہوں تیرے اجمال کا
کیا رہائی میں مزا جو قید ہو جانے میں ہے
تیرگئ شب میں آبِ چشم جو بہتا رہا
پاک تر ہے اس سے، پانی جو وضو خانے میں ہے
عشق کے دریا کی کشتی کو کنارہ ہے عبث
جو مزا غرقاب میں ہے وہ نہ تیرانے میں ہے
یوں ہی روز و شب گزرتی جا رہی ہے زندگی
دن غمِ دوراں میں ہے اور رات مے خانے میں ہے
اس کے دل میں گھر نہیں تیرا کہ تو ہے سنگ راہ
تیری تو قصدِ حیاتی ٹھوکریں کھانے میں ہے
ایک ضدی ہے میرا ہمزاد جو سنتا نہیں
لگ رہا ہے آبرو اب اسکے مرجانے میں ہے
ایک اسکے وصل کی ہے آرزو مجھ کو ضیاء
جسکی یادوں کی نمی ہر رات سرہانے میں ہے