پیرہن پر کیوں جمائی ہیں نظریں
دیکھو اگر دل تو وہ بھی شکستہ ہے
اک چھوٹی سی جونپڑی ہے یاّدوں کی
مگر بڑا ہی طویل اُس کا رَستہ ہے
یہ دُنیا اور تیری نہ بچھڑنے کی ضد
خُود سُوچو کیا یہ بھی ہو سکتا ہے
زخم نادیدہ سے سینے میں سمائے ہوئے ہیں
جب سے ہمارے محلے میں وہ آئے ہوئے ہیں
شبستانوں سے بہتر جانا اب تو ویرانوں کو
ڈرون جب سے امریکہ نے بنائے ہوئے ہیں
عجب سکونت کی اختیار بنجاروں نے کہ پٹواری حیران ہیں
قبضہ ہے کراچی پر اور مہاجر کھلائے ہوئے ہیں
روٹھو تم بار بار مگر کدورت نہیں چاہیے
ہم حاضر ہیں ہزار بار منانے کے لیے
لے آؤ کئی سے مٹی کا دیاّ اور رسی کی بھات
کہ لہو جگر کافی ہے اب جلانے کے لیے
ہر رمضان میں نام تیرے کچھ لکھ نہیں پاؤں گا
گیارہ مہینے کیا گزرتی وہ سب لکھ نہیں پاؤں گا
سچ جانو اب عمر کے اُس حصے میں ہوں
تُو جانو میں تجھے جان جگر کہہ نہیں پاؤں گا
اب ماند پڑا ہے میرا شوق خدمت،تم خود ہی
سحری کو اُٹھ جانا میں اُٹھا نہیں پاؤں گا