مریض ِ عشق کا علاج کیا کوئی کرے گا
یہ درد بخشا ہے جس نے دوا وہی کرے گا
جب کوئی شمعء محفل کرے گی اشکباری
تب کوئی چراغ خانہ ضیاء پاشی کرے گا
*****
زندگی میں جتنے زیادہ ہوں زخم
ملتا ہے اُتنی ہی مشکل سے مرہم
اِک نئے سفر پہ ہے مری پرواز
نظر زمیں پہ ، ہے کہکشاں پہ قدم
*****
وہ دریا تو نہ تھا جو سمندر میں اُتر جاتا
صبح کا بھولا نہ تھا کہ شام کو گھر جاتا
دامن جتنا پھیلایا اُتنے ہی چھید پڑے
کاش پہلے ہی پتھر پہ وہ ٹھہر جاتا
*****
جب سے اُس نے مجھے اپنا کیا بنایا ہے
زمانہ بھر غیر ہؤا ہر شخص پرایا ہے
اپنی مفلسی بھی اُس کو تونگری لگی ہوگی
سمجھا جس نے بھی عشق کو سرمایہ ہے
*****
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوتے
گر ہم نہ صاحب ِاختیار ہوتے
ہم اپنے زخموں کا شمار کیا کرتے؟
کہ یہ حساب غلط بار بار ہوتے
*****