مسخ ایسا یہ چہرہ ہو گیا ہے
اصل سے خُول گہرا ہو گیا ہے
جھوٹ کو اب سچ کہتے سنتے
قلب بیچارہ بہرا ہو گیا ہے
نبی کی شان میں کشت و خوں تو
مسلماں کا وطیرہ ہو گیا ہے
قہر ہوتا ہے کیا پہچانیں کیسے
خودی کا فکر رہ رہ ہو گیا ہے
عتابِ ایزدی کو وہ کیا سمجھے
عقل سے جو بے بہرہ ہو گیا ہے
علم سے بے علم ، سزا یا پھر ستم
بس کتابوں کا ذخیرہ ہو گیا ہے
اُٹھیں چیخیں اب اپنے گھر سے
سکوں سے کُل کنارہ ہو گیا ہے
بہت ہے اضطرابی مرد و زن میں
ظلم سے یہ اندھیرا ہو گیا ہے
گِدھ کھٹرے ہیں نو چنے کو یہ وطن
جرم تم سے کچھ کبیرہ ہو گیا ہے
نا راستی کا زور سبھی شعبہ و منصب
یہی کیا زہر مہرہ ہو گیا ہے
مہتمم بس معتبر یہ مان لو
دیس بھر رہزن جو پہرہ ہو گیا ہے
دقیقہ نظری اُس کی یاروں کیا کریں
طائر جو محصورِ پنجرہ ہو گیا ہے
ہوا ہی کیا اگر قوم سب سوئی سلیم
کم سے کم دنیا میں شہرہ ہو گیا ہے