✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Kaiser Mukhtar
Search
Add Poetry
Poetries by Kaiser Mukhtar
جُنبشِ لب کی شکن یاد رھی
جُنبشِ لب کی شکن یاد رھی
اک تری نوائے سُخن یاد رھی
جانے کب جسم جلا روح جلی
وہ دھکتی سی اگن یاد رھی
بر مستی و آبِ حیات و جنوں
غیرتِ شب کی دُلہن یاد رہی
وہ کوئی گُل تھا کہ وجودِ بہار
اک وہ خوشبوئے بدن یاد رھی
ہوش کھو دئے کہاں ہوش نہیں
بس کہ آرزوئے لگن یاد رھی
ھستی اپنی کو ھم بھول چکے
پہلوئے دل میں چُبھن یاد رھی
آھوئے وقت ہاتھ سے یوں نکلا
بس کہ وہ مُشکِ خُتن یاد رھی
Quasir Mukhtair
Copy
ذکر اکثر نہ پری وَش کا کرتے
ذکر اکثر نہ پری وَش کا کرتے
دل کی شریانیں نہ تباہ کرتے
موت کا دن جو مقرر ھوتا
توبہ کرتے، خدا خدا کرتے
تب گلہ جائز بھی ھوتا تیرا
ہم نہ تم سے کبھی وفا کرتے
ان سے چاہت کیوں نبھا ڈالی
جو وفا کا نہ کبھی گلہ کرتے
چاہتوں میں نہ رنگ بھر پاتے
خوں اگر ہم نہ جگر کا کرتے
پیار کرنا نہ جرم اگر ھوتا
پیار ہی پیار جا بہ جا کرتے
دل دُکھانا جو جرم کہلا تا
ناگہاں حشر کیوں برپا کرتے
روز روتی نہ نسل آدم کی
دوگھڑی مل کے ہنس لیا کرتے
دکھ برابر ھے تیرا اور میرا
یہی گتھی ہم سلجھایا کرتے
کام کیا ہے جہاں میں ہستی کا
نقطہ داں کاش یہی بتلایا کرتے
ہر تمنا جو نہیں ہوتی پوری
خواہ مخواہ جی نہ جلایا کرتے
گلے شکوے کی ھے دنیا مسکن
رو برو ھی شکوہ کر لیا کرتے
رازداری ہے میری محسن قیصر
ورنہ آنکھوں کو ھم خیرہ کرتے
Kaiser mukhtar
Copy
مز دُور کیا ، مز دُور کے او قات کیا
مز دُور کیا ، مز دُور کے او قات کیا
امیرِشہر کےسامنے یہ کھوکھلےجذبات کیا
احساس سے عاری ، یہ دولت کے پُجاری
اُنکے نظرئیے میں یہ ارض و سماوات کیا
تقسیمِ زر مُنصفانہ، ھے اِک نعرہء مستانہ
دولت کی نظر میں یہ ہاتھ وہ ہاتھ کیا
ہاتھ لگے جس کے وھی شہزادہء عالم
نَسب بُلندہوکوئی،نیچی کسی کی ذات کیا
اہلِ حِرص کی ہوَس جانے کیارنگ دکھلائے
قاضی کیاقانون کیافیصلےکی مساوات کیا
قیصر مُختار
Copy
پھوُلوں پہ شبنم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
پھوُلوں پہ شبنم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
اُس زُلف ِ برہم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
انسانی مقدر کی جب سے کھِینچی گئی لکیر
انسانوں کے غم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
اپنے دم پہ جب سے ہم نے جینا آخر سیکھ لیا
رستوں کے زیرو بم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
رشتوں کی خاطر لاکھ جتن کرکے ہمنے دیکھ لیا
رشتوں کے جوروستم کے ہیں لامتُناہی سلسلے
روزگارِ زمانہ نے ہمیں کیا کیا گُر سکھلائے ہیں
لیَل و نِہار کے غم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
بچوں کی خاطرماؤں نےکس قدر دُکھ جھیلا ہے
ماؤں کے دیدہء نم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
دَم ہے تو ہمدم ہے دَم ہی سے ابنِ آدم ہے
اِس دم کےاِس آدم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
بٹ کے رہ گئی قوم ، ادیان اور فرقوں میں
اس نسل ِ آدم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
جہد میں ہے پنِہاں قیصر جوہَر نسلِ انساں کا
اور کوششِ پیہم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
قیصر مُختار
Copy
کاش تجُھ جیسا اپنا بھی مقدر ھوتا
کاش تجُھ جیسا اپنا بھی مقدر ھوتا
اپنا فرمان بھی نہ کسی سے کمتر ھوتا
نصیبِ دُشمناں کیوں حضور ہیں رنجُور
آپ جو کھُل کے مُسکرا دیتے تو بہتر ھوتا
آپ جو ھر پَل ھر دَم ہی ہمارے ھوتے
آپ کی ھر ایک ادا پہ بپا محشر ھوتا
نہ بے سبب آدمیت میں عداوت ھوتی
بوجہ دولت نہ کوئی کمتر نہ تونگر ھوتا
کاش دُنیا میں کہیں بھی نہ وحشت ھوتی
حشر سے پہلے ھی نہ کہیں محشر ھوتا
تیری دل پھینک اداؤں نے مارا ھے ہمیں
تیرے مشتاق نہ ھوتے، نہ توُ ستمگر ھوتا
قضا بَھنور ے کی لایا ھے شمع کا جوَبن
قیصر جل کے نہ کبھی یوں خاکستر ھوتا
قیصر مختار
Copy
تَشنہ لب تھے ذات کے پنجرے میں قید
تَشنہ لب تھے ذات کے پنجرے میں قید
کُہنہ مشق اپنے ہنُر کے حُجرے میں قید
کیا سبب کفر ہے پروان میں چاروں طرف
عشق اب تک ہے توحیدکے سجدے میں قید
عشق آوارہ ، ٹوٹا تارہ ، سّچا عاشق در بدر
حُسن ہے بس اپنی ادا کے نخرے میں قید
حکم ہے حکومت ہے حکمرانی ہے اور بس
حکمراں ہے سیاستوں کے جگھڑے میں قید
دال روٹی بھاؤ میں، بھوکے شکم ننگے بدن
تاجداری، تاجوری کے فریبی خُلئیے میں قید
قیصر مختار
Copy
اقبال کی بانی اور وقت کا پہیہ
شکوہ ء ا ھل خِرد , درد مندانِ جہاں
مِٹ گئے جن کے نقوش وہ اھل زباں
قصّہء لالہ و گل میں مگن راقم داستاں
وہ مردانِ جری آج بھی ہیں شکوہ کناں
کیا ہوئی حسرت و فریاد کی کہانی یا رب
قصہء ارض و سما پہ اقبال کی بانی یارب
تیرے بندے کی وہ اُمّت اور اس کی اُٹھان
مردِ حُر خالد و عون اور وہ اھلِ ایمان
بات چل نکلی تو پھر سبھی نے دیکھا
حدّتِ ایمان سے پگھلے وہ قصریٰ کے محل
سُر چِھڑ ے اور مغنّی سبھی ساتھ ھوئے
غیرتِ ایمانی نے لکھی وہ مدھوش غزل
جس کے قِصّے پھر زبانِ زدِ عا م ھوئے
مردِ مومن پھر خدا سے ھم کلام ھوئے
گُل و لالہ و سرو سے وہ گُلستاں آباد ھوئے
جنکی خوشبو سے چہارعالم جہاں شاد ھوئے
پھر نہ جانے کہاں سے وہ جَھونکا آیا
اپنے ہمراہ ابدی خزاں کا اک تحفہ لایا
حکیمِ لا اُمّت نے پہچانی تھی جس کی نبض
جسم مُردہ ھُوا اور روح ہوئی اسکی قبض
ایک چُنگل سے جونِکلے تو پھنسے اَورسے اَور
پھر زمانے نے کئے و ہ ظلم ستم و جور
آج تک کا نپتی ھے روح مسلمانوں کی
چُھپ گئی ھے حرارت کہیں ایمانوں کی
و قت کے ساتھ ملا کر نہ چلا جو پہیّہ
خوابِ خرگوش میں کچھ بھی نہ ہوُا اسکو مہیا
قیصر مختار
Copy
زخم زخم پاکستان
صُورتِ احوال کراتی ہے باور
اِ ستِعمار ھے یہاں زور آور
بِنتِ حّو ا کا دامن تار تار
بخت والی ھے صرف بختاور
مَعصو ُمیت ہے یہاں عبرت نشاں
حُکمِ حا کم نہیں ھے اُمید آور
فاقہ مستوں کی ہے فوج ظفر موج
و طن پر ستی ھے اب خطا آور
سیاست میں کھیل,کھیل میں سیاست
سب کھلاڑی ہیں یہاں پیشہ وَر
ھو سیاست یا کہ و ڈ یرہ شاھی
دو ہی پیشے ہیں یہاں بار آور
آئین سازی ھو کہ قانُون داری
ساھُو کار کے واسطے ہیں نشہ آور
قیصر مختار
Copy
نظم. ریاست پاکستان
کوُچہ و بازار میں سیاست ہے
حیرت انگیز ہماری یہ ریاست ہے
سب کے جی میں ہے مال و زر یہاں
سب کا ایمان زر اور دولت ہے
شان و شوکت کے سب پُجاری ہیں
اپنے اسلاف سےکس کو نسبت ہے
عیش و عشرت ہے چلن سب کا
بہت مفقُو د جذبہ ء خدمت ہے
وطن پرستی ہی راہبروں میں نہیں
اِن کا مقصوُد جاہ و حشمت ہے
جسکاکھاتے ہیں اُسی کوکَوستےہیں
تمھی بتلاؤ یہ کہاں کی شرافت ہے
دلوں کے بیچ ہیں نفرت کی دیواریں
تو پھر بٹوارہ ہی قانونِ قدرت ہے
داؤ.پیچ چل رہے ہیں چاروں طرف
کیا اسی کا نام یہاں جمہوُریت ہے
اِسکی بدولت سروں پہ چھت ہےیہاں
شُکر مناؤ گردنوں پہ سر سلامت ہے
سازشوں کا مسکن ہے یہاں کب سے
چہار سِمت پھیلی ہوُئی خباثت ہے
خدا. کرے کہ وہ دن آئے جب کہیں
سیاست کا دوسرا نام ہی عبادت ہے
قیصر مختار
Copy
بے چین رھے تیرا دل اگر
بے چین رھے تیرا دل اگر
کچُھ اور بڑھے مشکل اگر
منزل پہ اپنا نشان رکھ
تُو حوصلوں کو جوان رکھ
ہمدم نہ ہو ترے پاس اگر
ہمدرد نہ ہو کوئی خاص اگر
تُو وقت کو پریشان رکھ
تُو حوصلوں کو جوان رکھ
پریشاں نہ ہو پشیماں نہ ہو
جو تُو زیب ِ داستاں نہ ہو
سدا تیاّر اپنی کمان رکھ
توُ حوصلوں کو جوان رکھ
معصُو م ھے معلوم ھے
تیرے گِرد بَلا کا ہجوُم ھے
دِل میں امید مہمان رکھ
توُ حوصلو ں کو جوان رکھ
نہ انصاف کا بول بالا ھو
خواہشوں پہ لگا اک تالا ھو
تو بھی اُونچی اپنی اُڑان رکھ
تُو حو صلوں کو جوان رکھ
پرَ کاٹ دے کوئی جان کر
کوئی تدبیر کا سامان کر
اور منزلوں پہ دھیان رکھ
توُ حوصلوں کو جوان رکھ
قیصر مختار
Copy
سِلسلے یہ قُربتوں کے جاری رکھنا
سِلسلے یہ قُربتوں کے جاری رکھنا
کیفئیتیں مُحبتوں کی طاری رکھنا
بے سبب ہی سہی اُنسے ملاقات اپنی
اعلٰی ظرفی ہےاُنکی بات ہماری رکھنا
بات غُنچے کی پھول بننے تک تھی
چلتی پھرتی یوُنہی بادِ بہاری رکھنا
حسرت و یاس نہ کبھی ہو نے دینا
حشر میں بھی کمالِ دل داری رکھنا
ہمارے حصے کی دنیا میں ہے عجب رَیا
نظام جمھُوری روئیّے اِستعماری رکھنا
بہت مُشکل و کم یاب ہے زمانے میں
زباں پہ حرفِ وفا دل میں وفاداری رکھنا
بعدِ حصُول منزل ِ شوق نہیں آساں
ولولہء تازہ دل میں بے قراری رکھنا
کتنا آساں ہے ابن ِ آدم کے لئیے
زبان شِیریں بغل میں کٹاری رکھنا
Kaiser Mukhtar
Copy
حاسدوں سے زہر کشید کرو
حاسدوں سے زہر کشید کرو
ظلمتوں سے سحر کشید کرو
بعد از اس خرابئی بسیار
کوئی تازہ ہُنر کشید کرو
زاہدوں فرشتوں کے درمیان
کوئی اعلیٰ بشر کشید کرو
بے ہنگم سیاستوں کے بیچ
راہنُما و راہبر کشید کرو
چاہتونکی تلاش میں سرگرداں
ہم نفس ہم سفر کشید کرو
بےپایاں فلسفوں،فلسفیوں میں
کوئی نقطہء نظر کشید کرو
انہی کالی بدلیوں کے درمیاں
کوئی روشن بدر کشید کرو
گزرگاہ زیست پہ چلتے چلتے
کہکشاں سے قمر کشید کرو
منزلِ شوق کی صعوبتوں میں
لازوال حوصلہ صبر کشید کرو
Kaiser Mukhatr
Copy
دیکھنا چاھو تو اِن آنکھو ں کے اندر دیکھنا
دیکھنا چاھو تو اِن آنکھو ں کے اندر دیکھنا
راز ِ ا ُلفت چا ہئے تو دل سمندر دیکھنا
گھرکےباھرسے گزرتے سائے سے ڈرلگتا ہے
گھر کے اندر بھی چُھپا یہ خوف یہ ڈر دیکھنا
چاہے بنوا لو دیواروں کو اُونچا جس قدر
خوف کے مبہوُ ت سایوں میں مقدر دیکھنا
نسلِ انسانی کے اندر و حشتو ں کا سلسلہ
کیوں دَر آیا ہے اس کو برابر دیکھنا
پہنچ چکے ہیں ھم تہزیب کے جس موڑ پر
اس میں وحشی پن کا گہرا عنصر دیکھنا
اکثر دیواروں کے سائے بڑھتے گھٹتے دیکھے
بڑھتے گھٹتے سائیوں میں دل مسافر دیکھنا
چاردیوارونکی چوکھٹ بنکے ہی نہیں دے رہی
چوکھٹوں کے درمیاں اپنے دیوار و در دیکھنا
Kaiser Mukhatr
Copy
اجنبی دیار میں مقدر. ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
اجنبی دیار میں مقدر. ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
ریت کے صحرامیں سمندر ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
بے. سکُونی کا دیار چھوڑ. کے بھاگا تھا میں
اجنبی دیواروں میں گھر ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
ریت کے گھروندے ہیں نظر دوڑاؤں جس طرف
پتھروں کے درمیاں گُہر ڈھونڈنے.نکلا ہوں میں
جس قد ر چا ھے رقیب زہر افشا نی کرے
دشمنوں میں جینے کا ہنُر ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
وہ. ھاتھ میں لے کر عصا رہنما بن ہی گیا
زلفِ زلیخا کا مصر ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
Kaiser Mukhatr
Copy
تیری قسمت تیرا رُوپ
تیری قسمت تیرا رُوپ
میری قسمت میرا رُوپ
نہ تُو بدلا نہ میں بدلا
نہ بدلی قسمت اپنی
نہ بدلے حالات ہی کب سے
نہ بدلی حالت اپنی
خرمست تُو اپنے حال میں
بدمست میں اپنے حال میں
ڈھنگ ڈھال نرالا ہے سب کا
اپنے حالات میں جیتے ہیں
لیکن حا لا ت کے مارے ہم
بس زہر پیالا پیتے ہیں
بے چین رہیں بے تاب رہیں
بصوُرت ماہیی بے آب رہیں
قسمت کی صوُرت دیکھئےاب
کب یہ حالات بدلتے ہیں
کس رُخ ہوائیں چلتی ہیں
کب دن اور رات بدلتے ہیں
Kaiser Mukhtar
Copy
ناروا اطوار
لوگ سیانے ہوگئے ہیں
زندگی کی تپتی دھوپ میں
جل کے کندن ہوگئے ہیں
وقت کی رفتار ماپتے ہیں
اڑان بھرتے ہیں.... پنچھیوں کی طرح
اور منزل منزل رواں دواں ہیں
مگر جذبات کی تند رو میں
بہہ جاتے ہیں....معصوم بچوں کی طرح
اور عشق کی تند آگ میں
جھلس جانے کو بھی تیار بیٹھے ہیں
مقدس پاک رشتوں کی
اب بھی کی جاتی ہے قدردانی
شمع جلے تو اب بھی پروانہ
چلا آتا ہے جاں ہتھیلی پہ لئے
ماں کو ہے بچے سے اب بھی اسی قدر پیار
اور باپ کی شفقت کی بھی ہے وہی بھرمار
مگر معیار بدل گئے ہیں
قول و قرار بدل گئے ہیں
قدر نوع انسانی میں ہے گراوٹ بے تحاشہ
لگا ہے انساں کے ہاتھوں انساں کی تذلیل کا تماشہ
دولت میں تلتی ہے" قدر " نوع انساں کی
بازار میں بکتے ہیں ہنر اور ہنرمند
تہذیب کے معیار الگ ہوگئے ہیں
دین و دنیا کے اطوار الگ ہوگئے ہیں
کہیں مٹی میں ملتے ہیں
روز اجل میں انساں
اور کہیں پہ جانور بھی نہیں سہ پاتے
سلوک نا روا
کہیں پہ آدمی روٹی کو ترستا ہے
اور کہیں پہ کتا بھی مکھن کھا کے سوتا ہے
خدا جانے" یہ " معیار کیوں پنپتے ہیں
سہ پاتی ہے قدرت کیونکر یہ ناروا اطوار
Kaiser Mukhtar
Copy
انتظار کے لمحوں میں
(بیٹی کی پیدائیش سے قبل تحریر)
معصوم سا چہرہ
معصوم ادائیں
اس دل کے گھروندے کو
جی بھر کے للچائیں
گئے اداسی کے دن وہ آخر
آئی نوید جیون کی
دل کے نہاں خانوں میں
چھائی لہر مسرت کی
گزرتے لمحوں کے ساتھ ساتھ
دل پکارے
کشادہ بانہوں کے ساتھ
اب آ بھی جاؤ
نہ ہمیں اور تم ستاؤ
کہ جیون بانہیں پسارے
تمہارے استقبال کے واسطے
بے چین ہے...... بے چین ہے
Kaiser Mukhtar
Copy
محفل دل جلاں جہاں جمی ہوگی
محفل دل جلاں جہاں جمی ہوگی
شمع وفا وہیں پہ جلی ہوگی
بہت ہوں گے داعی محبت کے لیکن
وفا کے عناصر کی ہی کمی ہوگی
ہم ان کے دل میں سما جائیں کیونکر
اوروں کی بھی محفل وہیں جمی ہوگی
ریگ زار زیست کریں گے وہی پار
دلوں میں جن کے دل جمعی ہوگی
ہم ایسے کہاں جائیں کہ ہے وہ زمانہ
ان ہی کی چار سو ہمہ ہمی ہوگی
کہاں تک سنائیں کہاں تک سنیں وہ
ہماری تو بس سنی ان سنی ہوگی
Kaiser Mukhtar
Copy
لکھا ہے کیا کچھ زندگی کے باب میں
تلملا رہا ہوں اسی پیچ و تاب میں
لکھا ہے کیا کچھ زندگی کے باب میں
ہوتے نہیں جو با وفا ان کو صلہ ملے
جو جل مرے وہ کیا ہوئے تیرے شباب میں
میری وفا کی آگ میرے دامن کو کھا گئی
پڑی ہے میری زیست نہ کس کس عذاب میں
ہوئے زندگی کی آگ میں ہم تو کوئلہ
بہتر تھا بھن دیے جاتے سیخ و کباب میں
گلوں کی تمنا میں ہوئے کانٹے دامن گیر
آتش کو گل سمجھ بیٹھے ہم تو سراب میں
Kaiser Mukhtar
Copy
میرے جذبوں کی ترجمانی
یہ موسم میرے جذبوں کی ترجمانی کرے
کیا کروں میں جو اٹھکیلیاں جوانی کرے
ہر ایک جذبے کو پابند سلاسل رکھوں
یہ کیسے ہو کہ نہ دل کبھی نادانی کرے
میرے وجود کی ہر رگ میں ہے خلوص ووفا
خلاف وضع نہ دل میرا کوئی کہانی کرے
قصہ غم کو میں کب تلک دھرائے جاؤں
کوئی تو ہو جو میری بات اپنی زبانی کرے
کون کافر ہے جو تردید وفا کر بیٹھے
جو حسن اس کا ہر لمحہ حشر سامانی کرے
تمام جذبے ہیں منسوب حسن ناداں سے
ہر ایک دل کونپل ناداں کی باغ بانی کرے
Kaiser Mukhtar
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets